مکینِ دل نہ سمجھے، پردہ دارِ لامکاں سمجھے
کہاں تھے تم، مگر ہم کم نگاہی سے کہاں سمجھے
ہوئے خاموش جب فطرت کو اپنا ترجمہ سمجھے
ہر اک غنچے کو دل، ہر خار کو اپنی زباں سمجھے
فقط تھا امتحاں منظور جذبِ شوقِ کامل کا
نہ جس نے درس گاہِ عشق میں تعلیم پائی ہو
میری باتیں وہ کیا سمجھے، وہ کیا میری زباں سمجھے
تمہارے نام کو ہم نے دوائے دردِ دل جانا
تمہارے ذکر ہم باعثِ تسکینِ جاں سمجھے
سنی ہے داستانِ سرمد و منصور بھی تم نے
مگر اب تک نہ الفت کی حدیثِ خونچکاں سمجھے
رگِ جاں سے صدا دی، گوشۂ دل میں نظر آئے
کہاں وہ جلوہ گر تھے اور ان کو ہم کہاں سمجھے
میں کہنے کو تو اس سے سرگزشت اپنی کہوں بیدمؔ
مگر سن کر خدا ہی جانے کیا وہ بدگماں سمجھے
بیدم شاہ وارثی
No comments:
Post a Comment