Sunday 27 November 2016

وہ شخص کیا ہوا وہ اس کا گھر کہاں ہو گا

وہ شخص کیا ہوا وہ اس کا گھر کہاں ہو گا
اب اس دیار میں، مجھ سے بسر کہاں ہو گا
میں جس کے ساۓ میں جا بیٹھتا تھا دن دن بھر
کوئی بتاۓ کہ اب وہ شجر کہاں ہو گا
نظر جھکا کے چرا لے گیا جو ہوش و خرد
پھر اس کا سامنا اب عمر بھر کہاں ہو گا
چراغِ راہ وہی ہے، گلی کا موڑ وہی
وہ میرا یار، وہ آشفتہ سر، کہاں ہو گا
مِٹی مِٹی تِری تحریر چوم لیتا ہوں
ان آنسوؤں کا مقدر مگر کہاں ہو گا
سفید خون میں سرخی ملا کے جی لیں گے
علاج اس کے سوا چارہ گر! کہاں ہو گا
یہ کیسی بے گھری اب ساتھ ہو گئی میرے
وہ کھڑکیاں کہاں ہوں گی وہ در کہاں ہو گا
عروجِ فن پہ کمندِ زیاں جو پھینک سکے
ہمارے ایسا بھی صاحب نظر کہاں ہو گا
متینؔ بے سر و سامانیاں ہی ساتھ رکھو
شعورِ عجزِ ہنر در بدر کہاں ہو گا

اقبال متین

No comments:

Post a Comment