سر تن سے کہ تن سر سے جدا ہو نہیں سکتا
قاتل جو سلامت ہو تو کیا ہو نہیں سکتا
ہر وقت کے دکھ درد کا ساتھی ہے غمِ عشق
یہ دوست کبھی دل سے جدا ہو نہیں سکتا
شرما سے گئے کچھ وہ دمِ تذکرۂ وصل
جھیپے ہوئے لہجے میں کہا ہو نہیں سکتا
تم اور نا کوسو مجھے، ممکن ہی نہیں ہے
میں اور نا دوں تم کو دعا ہو نہیں سکتا
لپٹا ہی لیا وصل میں یہ کہہ کے کسی کو
اب دل سے مِرے صبر زرا ہو نہیں سکتا
وہ پرسشِ محشر سے کبھی بچ نہیں سکتے
ظالم کا طرف دار خدا ہو نہیں سکتا
تم سا کوئی اچھا نظر آتا نہیں مجھ کو
مجھ سا کوئی دنیا میں برا ہو نہیں سکتا
وہ وعدہ شکن اور میرا گھر شبِ وعدہ
اللہ! تِرا شکر ادا ہو نہیں سکتا
روکے سے جوانی کی امنگیں نہیں رکتیں
وہ شوخ تو پابندِ حیا ہو نہیں سکتا
اے ہجرؔ برا لاکھ بتائیں مجھے دشمن
اچھا ہوں اگر میں تو برا ہو نہیں سکتا
ہجر شاہجہانپوری
نواب ناظم علی خان
قاتل جو سلامت ہو تو کیا ہو نہیں سکتا
ہر وقت کے دکھ درد کا ساتھی ہے غمِ عشق
یہ دوست کبھی دل سے جدا ہو نہیں سکتا
شرما سے گئے کچھ وہ دمِ تذکرۂ وصل
جھیپے ہوئے لہجے میں کہا ہو نہیں سکتا
تم اور نا کوسو مجھے، ممکن ہی نہیں ہے
میں اور نا دوں تم کو دعا ہو نہیں سکتا
لپٹا ہی لیا وصل میں یہ کہہ کے کسی کو
اب دل سے مِرے صبر زرا ہو نہیں سکتا
وہ پرسشِ محشر سے کبھی بچ نہیں سکتے
ظالم کا طرف دار خدا ہو نہیں سکتا
تم سا کوئی اچھا نظر آتا نہیں مجھ کو
مجھ سا کوئی دنیا میں برا ہو نہیں سکتا
وہ وعدہ شکن اور میرا گھر شبِ وعدہ
اللہ! تِرا شکر ادا ہو نہیں سکتا
روکے سے جوانی کی امنگیں نہیں رکتیں
وہ شوخ تو پابندِ حیا ہو نہیں سکتا
اے ہجرؔ برا لاکھ بتائیں مجھے دشمن
اچھا ہوں اگر میں تو برا ہو نہیں سکتا
ہجر شاہجہانپوری
نواب ناظم علی خان
No comments:
Post a Comment