Sunday, 27 November 2016

سر تن سے کہ تن سر سے جدا ہو نہیں سکتا

سر تن سے کہ تن سر سے جدا ہو نہیں سکتا
قاتل جو سلامت ہو تو کیا ہو نہیں سکتا
ہر وقت کے دکھ درد کا ساتھی ہے غمِ عشق
یہ دوست کبھی دل سے جدا ہو نہیں سکتا
شرما سے گئے کچھ وہ دمِ تذکرۂ وصل
جھیپے ہوئے لہجے میں کہا ہو نہیں سکتا
تم اور نا کوسو مجھے، ممکن ہی نہیں ہے
میں اور نا دوں تم کو دعا ہو نہیں سکتا
لپٹا ہی لیا وصل میں یہ کہہ کے کسی کو
اب دل سے مِرے صبر زرا ہو نہیں سکتا
وہ پرسشِ محشر سے کبھی بچ نہیں سکتے
ظالم کا طرف دار خدا ہو نہیں سکتا
تم سا کوئی اچھا نظر آتا نہیں مجھ کو
مجھ سا کوئی دنیا میں برا ہو نہیں سکتا
وہ وعدہ شکن اور میرا گھر شبِ وعدہ
اللہ! تِرا شکر ادا ہو نہیں سکتا
روکے سے جوانی کی امنگیں نہیں رکتیں
وہ شوخ تو پابندِ حیا ہو نہیں سکتا
اے ہجرؔ برا لاکھ بتائیں مجھے دشمن
اچھا ہوں اگر میں تو برا ہو نہیں سکتا

ہجر شاہجہانپوری
نواب ناظم علی خان

No comments:

Post a Comment