ہو چکے شکوے شکایت پھر خدا کے سامنے
تم جو آ بیٹھو گے یوں ہی سر جھکا کے سامنے
وصل کی شب آسماں تاروں کے جامِ زرنگار
چاند کی کشتی میں لایا ہے لگا کے سامنے
کر رہے تھے غیر سے میری برائی آج وہ
جس پہ پڑتی ہیں نگاہیں کیا وہی یہ حشرؔ ہے
او ستم گر! دیکھ تو آنکھیں اٹھا کے سامنے
آغا حشر کاشمیری
No comments:
Post a Comment