Wednesday, 23 November 2016

تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا

تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا
یہاں اپنے سوا کوئی ملاقاتی نہیں ہوتا
اب اس بات پہ میرے یار الجھتے ہیں
کہ ہر بات سن لیتا ہوں، جذباتی نہیں ہوتا
گرفتارِ وفا! رونے کا کوئی ایک موسم رکھ
جو نالہ روز بہہ نکلے وہ برساتی نہیں ہوتا
تجھے دل میں جگہ دی ہے نظر سے دور کیا کرتے
جو مرکز میں ٹھہر جائے، مضافاتی نہیں ہوتا
بچھڑنے کا ارادہ ہو تو مجھ سے مشورہ کرنا
محبت میں کوئی بھی فیصلہ، ذاتی نہیں ہوتا

افضل خان

No comments:

Post a Comment