راہ بھولا ہوں مگر یہ مِری خامی تو نہیں
میں کہیں اور سے آیا ہوں مقامی تو نہیں
اونچا لہجہ ہے فقط زورِ دلائل کے لئے
یہ مِری جان! مِری تلخ کلامی تو نہیں
ان درختوں کو دعا دو کہ جو رستے میں نہ تھے
تیری مسند پہ کوئی اور نہیں آ سکتا
یہ مِرا دل ہے کوئی خالی آسامی تو نہیں
میں ہمہ وقت محبت میں پڑا رہتا تھا
پھر کسی دوست سے پوچھا یہ غلامی تو نہیں
برتری اتنی بھی اپنی نہ جتا اے میرے عشق
تُو ندیم و علی و کاشف و کامی تو نہیں
افضل خان
No comments:
Post a Comment