Wednesday 30 November 2016

ذوالفقار حیدری چوتھا حصہ

عارفانہ کلام منقبت سلام
ذوالفقار حیدری چوتھا حصہ

رعبِ غضب سے گورکنوں کو دبا لیا
بنتِ نبی کی قبر کو جس نے بچا لیا
لیتی تھی منکروں کے دلوں کی تلاشیاں
مقصد یہ تھا کہ دور کرے بدقماشیاں
دلداریاں بڑھیں تو مٹیں دل خراشیاں
کرتی تھی ریگزار میں وہ تخم پاشیاں
دشت و جبل میں نخلِ محبت اگا دیا
پتھر کو ایسا نرم کیا دل بنا دیا
آئینۂ خرد تھی فروغِ شعور تھی
خوددار تھی، سخی تھی، جری تھی، غیور تھی
غمخوار تھی، جفا و تشدد سے دور تھی
ہاں دشمنِ رسولؐ کی دشمن ضرور تھی
کس طرح شکل دیکھتی ظالم رقیب کی
عاشق جو تھی وہ اپنے خدا کے حبیب کی
ہمدردِ مصطفیٰ تھی، نگہبانِ مصطفیٰ
ہوتی تھی رزم گاہ میں قربانِ مصطفیٰ
ارمانِ ذوالفقار تھا ارمانِ مصطفیٰ
پہنچا رہی تھی دہر میں فرمانِ مصطفیٰ
رن میں رواں تھی تیغِ دودم بوتراب کی
یا نبض چل رہی تھی رسالت مآب کی
تیغِ علی سے کافرِ بد بیں ہلاک تھا
سینہ ستم گرانِ ضلالت کا چاک تھا
بدکیش غرقِ خوں تھا، عدو نذرِ خاک تھا
پھر بھی گنہ کے داغ سے تن اس کا پاک تھا

شمیم کرہانی

No comments:

Post a Comment