Tuesday 29 November 2016

رات سناٹے کی چادر میں پڑی ہے لپٹی

زندگی کا وقفہ

رات سناٹے کی چادر میں پڑی ہے لپٹی
پتیاں سڑکوں کی سب جاگ رہی ہیں جیسے
دیکھنا چاہتی ہیں شہر میں کیا ہوتا ہے
میں ہمیشہ کی طرح ہونٹوں میں سگریٹ کو دباۓ
سونے سے پہلے خیالات میں کھویا ہوا ہوں
دن میں کیا کچھ کیا اک جائزہ لیتا ہے ضمیر

ایک سادہ سا ورق نامۂ اعمال ہے سب
کچھ نہیں لکھا بجز اس کے، پِسے جاؤ یوں ہی
کچھ نہیں لکھا بس اک اتنا کہ انساں کا نصیب
گیلی گوندھی ہوئی مٹی کا ہے اک تودہ سا
دن میں سو شکلیں بنا کرتی ہیں اس مٹی سے
کچھ نہیں لکھا بس اک اتنا کہ چیونٹی دل ہے
جوق در جوق جو انسان نظر آتے ہیں
دانہ لے کر کسی دیوار پہ چڑھنا گرنا
اور پھر چڑھنا چڑھے جانا یوں ہی شام و سحر
کچھ نہیں لکھا بس اتنا کہ پسے جاؤ یوں ہی
اور اندوہ، تأسف، خوشی، آلام، نشاط
خود کو سو ناموں سے بہلاتے رہو، چلتے رہو
سانس رک جاۓ جہاں سمجھو وہیں منزل ہے
اور اس دوڑ سے تھک جاؤ تو سگریٹ پی لو

اختر الایمان

No comments:

Post a Comment