مزاجِ زیست کا ایک ایک رخ دکھا کے چلے
ہم اپنی ذات سے، سارے حِجاب اٹھا کے چلے
ہمِیں ہیں راستۂ شوق میں سُبک رفتار
چلے زمانہ تو، ہم سے قدم مِلا کے چلے
نہ ہاتھ آیا کسی طرح وہ گلِ خوبی
قدم قدم پہ تھا ناکام حسرتوں کا ہجوم
اسی ہجوم میں، ہم راستہ بنا کے چلے
ملے گا تُو بھی کہ اب تیرے ڈھونڈنے والے
تِری تلاش میں اپنا سراغ پا کے چلے
نہ چھین لے کوئی اس کو بھی، اس لئے ہمدم
متاعِ درد، زمانے سے ہم چھپا کے چلے
وہ نا خدا جسے دعوےٰ ہو ناخدائی کا
سفینہ سیلِ حوادث سے کیوں بچا کے چلے
جو اپنی راہ، سلامت روی سے چلتے ہیں
زمانہ ان کے قدم سے، قدم مِلا کے چلے
نوید ہو، تِرے شیدائی جانبِ منزِل
کفن بدوش چلے، خون میں نہا کے چلے
خدا کا شکر کہ ناکامیوں سے تابؔش کی
ہزار کام کسی بندۂ خدا کے چلے
تابش دہلوی
No comments:
Post a Comment