مقتلِ شہر میں اک شور سنائی دے گا
سر پھِرا کوئی سرِ داردکھائی دے گا
ایک دن عدل کی زنجیر ہِلے گی یارو
وقت کا لمحہ ہمیں اذنِ رہائی دے گا
چہرۂ زیست سے سرکے گی جو شب کی چادر
شور تا حشر بپا ہو گا ستمگر کے خلاف
ہم نہ ہوں گے تو کوئی اور دُہائی دے گا
ذہن میں ابھریں گے گمگشتہ محبت کے نقوش
جب وہ ہاتوں میں مِرے دستِ حنائی دے گا
منصب و جاہ کی جس سے ہے تجھے بخش امید
وہ تیرے ہاتھ میں کشکولِ گدائی دے گا
بخش لائلپوری
No comments:
Post a Comment