عارفانہ کلام منقبت سلام
ذوالفقار حیدری گیارہواں حصہ
افسوس، حکمِ جنگ نہیں ذوالفقار کو
ورنہ الٹ کے رکھ دے ابھی کارزار کو
پانی پلائے لا کے شہِ دل فگار کو
پر کیا کرے، وہ مصلحتِ کردگار کو
تیغِ ظفر ہے فاتحِ بدر و حنین کی
اک روز قلعہ گیر تھی شمشیرِ حیدری
اب اک عصائے پیر تھی شمشیرِ حیدری
مظلوم تھی، اسیر تھی شمشیرِ حیدری
اشکوں کی اک لکیر تھی شمشیرِ حیدری
شمشیرِ غم زدہ میں جھلک ابتلا کی تھی
یا ڈبڈبائی آنکھ شہِ لافتیٰ کی تھی
اصغر کی غمگسار ہے، اکبر کی غمگسار
بنتِ نبی کے چاند سے دلبر کی غمگسار
سارے عزیز و ہمدم و یاور کی غمگسار
صحرائے بے کسی میں بہتر کی غمگسار
تلوار ہو گی، حیدرِ کرّار کے لیے
تکیہ ہے آج عابدِ بیمار کے لیے
وہ دوپہر وہ چہرۂ شبیرِ پرغبار
وہ حرملہ کا تیر، وہ حلقومِ شیر خوار
جلتی ہوئی وہ ریت وہ بانو کا گلعذار
تھرا رہی تھی فاتحِ خیبر کی ذوالفقار
یہ بھی تھا کام تیغِ دو پیکر کے واسطے
تیار کی لحد علی اصغر کے واسطے
کٹتا ہوا حسین کا سر دیکھتی رہی
جلتا ہوا رسول کا گھر دیکھتی رہی
بنتِ علی کو برہنہ سر دیکھتی رہی
دیکھا نہ جا رہا تھا مگر دیکھتی رہی
ایسا پڑا نہ وقت کبھی ذوالفقار پر
کیا اعتراض، مرضئ پروردگار پر
شمیم کرہانی
No comments:
Post a Comment