Monday 28 November 2016

گزری حیات وہ نہ ہوئے مہرباں کبھی

گزری حیات وہ نہ ہوئے مہرباں کبھی
سنتے تھے ہم کہ عشق نہیں رائیگاں کبھی
اتنا تو یاد سا ہے کہ ہم تھے جواں کبھی
پھرتی ہیں کچھ نگاہ میں پرچھائیاں کبھی
دو گل قفس میں رکھ کے نہ صیاد دے فریب
دیکھا ہے ہم نے جیسے نہیں آشیاں کبھی
بھولے ہوئے ہو تم تو دلائیں گے ہم نہ یاد
ہم تم بھی، راہِ زیست میں تھے ہم عناں کبھی
ویرانئ نِگاہ پہ میری نہ جائیے
پلتی تھیں اسکے سائے میں بھی بجلیاں کبھی
ہاں یاد ہے کسی کی وہ پہلی نگاہِ لطف
پھر خوں کو یوں رگوں میں نہ دیکھا رواں کبھی
ملاؔ بنا دیا ہے اسے بھی محاذِ جنگ
اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی

آنند نرائن ملا

No comments:

Post a Comment