گزری حیات وہ نہ ہوئے مہرباں کبھی
سنتے تھے ہم کہ عشق نہیں رائیگاں کبھی
اتنا تو یاد سا ہے کہ ہم تھے جواں کبھی
پھرتی ہیں کچھ نگاہ میں پرچھائیاں کبھی
دو گل قفس میں رکھ کے نہ صیاد دے فریب
بھولے ہوئے ہو تم تو دلائیں گے ہم نہ یاد
ہم تم بھی، راہِ زیست میں تھے ہم عناں کبھی
ویرانئ نِگاہ پہ میری نہ جائیے
پلتی تھیں اسکے سائے میں بھی بجلیاں کبھی
ہاں یاد ہے کسی کی وہ پہلی نگاہِ لطف
پھر خوں کو یوں رگوں میں نہ دیکھا رواں کبھی
ملاؔ بنا دیا ہے اسے بھی محاذِ جنگ
اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی
آنند نرائن ملا
No comments:
Post a Comment