یہ مجھ سے کس طرح کی ضد دلِ برباد کرتا ہے
میں جس کو بھولنا چاہوں، اسی کو یاد کرتا ہے
قفس میں جس کے بازو شل ہوئے رزقِ اسیری سے
وہی صیدِ زبوں صیاد کو صیاد کرتا ہے
طریقے ظلم کے صیاد نے سارے بدل ڈالے
افق سے دیکھ کر رعنائیاں ہم خاک زادوں کی
زمیں بوسی کی کوشش چرخِ بے بنیاد کرتا ہے
تھپیڑے وقت کے، کتنے سبق آموز ہوتے ہیں
زمانہ بھی تو کارِ سیلئ استاد کرتا ہے
ستم اہلِ جہاں کا، حوصلہ دیتا ہے جینے کا
وہ بارِ غم اٹھانے میں مِری امداد کرتا ہے
کیا تھا خلد میں ابلیس نے گمراہ آدمؑ کو
اب آدم زاد کو گمراہ آدم زاد کرتا ہے
دلِ افسردہ میں جب ضعف سے کچھ بھی نہیں باقی
نشاطِ شوق کا مژدہ، کسے پھر شاد کرتا ہے
وہ جوۓ شِیر ہو یا جوئے خوں، دونوں برابر ہیں
کہ، ان دونوں کو جاری تیشۂ فرہاد کرتا ہے
دلِ ویراں میں تابؔش! کیوں تمنائیں بساتے ہو
بڑے ناداں ہو، صحرا بھی کوئی آباد کرتا ہے
تابش دہلوی
No comments:
Post a Comment