Monday, 28 November 2016

وہی حرص و ہوس کا تنگ زنداں ہے جہاں میں ہوں

وہی حرص و ہوس کا تنگ زنداں ہے جہاں میں ہوں
وہی انساں وہی دنیائے انساں ہے جہاں میں ہوں
تمنا قید، ہمت پا بہ جولاں ہے، جہاں میں ہوں
مجھے جکڑے ہوئے زنجیر امکاں ہے جہاں میں ہوں
کبھی شاید یہ محفل بھی ستاروں سے چمک اٹھے
ابھی تو اشکِ بے کس سے چراغاں ہے جہاں میں ہوں
کسی دن تپتے تپتے یہ بھی شاید سرخ ہو جائے
ابھی برفاب کا سا خونِ دہقاں ہے جہاں میں ہوں
کبھی شاید فرشتہ آدمِ خاکی بھی بن جائے
ابھی تو بھیس میں انسان کے شیطاں ہے جہاں میں ہوں
افق پر ہوں تو ہوں دھندلے سے کچھ جلوے مسرت کے
ابھی راحت فقط اک خوابِ ارماں ہے جہاں میں ہوں
نظر میں ہیں تصور کے وہی موہوم نظارے
ابھی انساں حقیقت سے گریزاں ہے جہاں میں ہوں
خدا وہ دن تو لائے سوز بھی اک ساز بن جائے
ابھی ہر ساز میں اک سوز پنہاں ہے جہاں میں ہوں
مجھے بھی شوقِ آزادی ہے لیکن کیا کروں اس کو
مرے چاروں طرف زنداں ہی زنداں ہے جہاں میں ہوں
بدلنے کو بدل جائے جہاں، لیکن ابھی ملاؔ
وہی دنیائے برق و باد و باراں ہے جہاں میں ہوں

آنند نرائن ملا

No comments:

Post a Comment