عارفانہ کلام منقبت سلام
ذوالفقار حیدری چھٹا حصہ
مسلک تھا ذوالفقار کا ایمان و اعتقاد
رکھتی تھی اپنے مالکِ صابر پہ اعتماد
دینا پڑی مؤرخِ عالم کو چپ کی داد
تھی سیفِ مرتضیٰ کی خموشی بھی اک جہاد
اسلام پر فساد کا در کھولتی نہ تھی
قنبر نواز، حامئ آزادئ غلام
رسمِ شہنشہی کی عدو، مخلصِ عوام
دنیا کو دے رہی تھی نیا مجلسی نظام
پہنچا رہی تھی دہر میں توحید کا پیام
تبلیغِ حق میں مائلِ صد انہماک تھی
تیغِ علی مفسرِ قرآنِ پاک تھی
ایماں فروز، دافعِ ہر ظلمت و محن
انجم نگاہ، مہر جبیں، برق پیرہن
یزداں پرست، دشمنِ اربابِ اہرمن
باطل شکن، غرور شکن، بت کدہ شکن
ضربِ یقیں تھی کثرتِ اوہام کے لیے
آوازِ لا الٰہ تھی اصنام کے لیے
سلطانِ دہر ہوں کہ فقیرانِ فاقہ مست
تھے عدل کی نگاہ میں یکساں بلند و پست
کرتی تھی انقلابِ تمدن کا بندوبست
جعت پسند ذہن کو دیتی تھی وہ شکست
جمہور کی رفیق، عدو سامراج کی
ناظم معاشرت کی مدبر سماج کی
مطلب یہ تھا کہ قلب نہ کوئی تپاں رہے
مظلومیِ گدا نہ غرورِ شہاں رہے
نوعِ بشر نہ بھوک سے آشفتہ جاں رہے
دنیا سے دور کلفتِ سود و زیاں رہے
دے دے کے اہلِ ظلم کی دولت عوام کو
مضبوط کر رہی تھی معاشی نظام کو
شمیم کرہانی
No comments:
Post a Comment