ہم آشنا حیات سے اب ایسے کیا ہوئے
جس نے دیا فریب، فدا برملا ہوئے
ایسی دروغ گوئی کی ہے چل پڑی ہوا
سچائیوں پہ شک کے گماں جابجا ہوئے
ہم پر جو اپنی جان لُٹانے کو آئے تھے
کچھ اس طرح سے آپ نے کیں مہربانیاں
ہم سے محبتوں کے نہ قرضے ادا ہوئے
کس بات کا غرور کرے آدمی بتا
موت آئے کیسے کیسے یہاں کیا سے کیا ہوئے
شکوہ زباں پہ آنے نہیں دیں گے ہم جناب
پر آپ کس لیے اجی اتنے خفا ہوئے
الفت خلوص و مہر و وفا سے ہی جوڑیے
ورنہ اٹوٹ رشتے جدا بے نوا ہوئے
اوقات اپنی بھول گئے دیکھیے خیالؔ
جن پتھروں کو ہم نے تراشا خدا ہوئے
اسماعیل اعجاز خیال
No comments:
Post a Comment