جگہ سب دلوں میں بنانے چلا ہوں
میں دل دل میں الفت کو پانے چلا ہوں
خفا ہو گئے ہیں جو اک دوسرے سے
میں ان دوستوں کو منانے چلا ہوں
ہیں انساں مزیّن سبهی خوبیوں سے
جنہیں جو ملا ہے وہ رب کی عطا ہے
یہ احساس جگ کو دلانے چلا ہوں
جو پیکر حسیں خود پہ نازاں ہیں ہر پل
انہں آئینہ میں دکهانے چلا ہوں
جو ٹوٹے دلوں کو لیے جی رہے ہیں
میں ان سب دلوں کو لبهانے چلا ہوں
جن آنکهوں میں نفرت کی چنگاریاں ہیں
ان آنکهوں میں الفت جگانے چلا ہوں
میں کانٹوں سے دامن بچا کر ہر اک سُو
گلوں سے چمن کو سجانے چلا ہوں
خیالؔ ان حسینوں سے کر کے میں الفت
کریں کس طرح وہ، سکهانے چلا ہوں
اسماعیل اعجاز خیال
No comments:
Post a Comment