عارفانہ کلام منقبت سلام
ذوالفقار حیدری دسواں حصہ
شعلوں کو لالہ زار بناتی چلی گئی
ہر بولہب کی آگ بجھاتی چلی گئی
دنیائے شعلہ خو کیلئے نارِ جاں گسل
آتش فشاں مدام، شرر بار مستقل
لیکن جہانِ مہر و محبت میں نرم دل
نمرودیت کی آگ کو ایسا بجھا دیا
امن و سلامتی کا گلستاں کھلا دیا
رکھتی تھی ربط آلِ محمدﷺ کے کام سے
تھا عشق اسے حسین علیہ السلام سے
اہلِ عرب سے ضد تھی نہ اربابِ شام سے
تھا اس کو اختلاف یزیدی نظام سے
نعرہ تھا لب پہ تیغ کے، ہل من مزید کا
بجلی تلاش کرتی تھی خرمن یزید کا
وہ چاہتی تھی، بند ہو رسم و رہِ ستم
صبحِ خوشی کا راج ہو، مٹ جائے شامِ غم
زر کے اجارہ دار اکیلے نہ تم نہ ہم
رکھیں بلند، وحدتِ اقوام کا علم
پرچھائیاں الگ نہ ہوں خورشید کے تلے
اک کارواں ہو پرچمِ توحید کے تلے
ہرچند اس نے حکم نہ پایا جہاد کا
لیکن وہ بند کر کے رہی در فساد کا
ٹھنڈا مزاج کر دیا ہر بدنہاد کا
پھر جل سکا چراغ نہ ابنِ زیاد کا
ضو تیغ کی یزیدِ بد انجام تک گئی
وہ صبح تھی کہ جس کی چمک شام تک گئی
کہتی تھی وہ رقیبِ تمدن یزید ہے
گلزارِ حق میں دشمنِ گلبن یزید ہے
جو نوچ لے جگر کو وہ ناخن یزید ہے
اسلام کی بِنا کے لیے گھن یزید ہے
جلدی مٹاؤ ایسے ظلوم و جہول کو
دیمک ہے چاٹ جائے نہ دینِ رسولؐ کو
کہتی تھی ذوالفقار کہ غدار ہے یزید
اک آمرانہ قصر کا معمار ہے یزید
اسلام کے نظام سے بیزار ہے یزید
طبعِ علیل و ذہنِ غلط کار ہے یزید
دو موت کا پیام ستمگار کے لیے
داروئے تلخ چاہیے بیمار کے لیے
شمیم کرہانی
No comments:
Post a Comment