پچھتا رہے ہیں تم پر دل کو نثار کر کے
کیسے بدل گئے ہو قول و قرار کر کے
‘تم نے کہا تھا ’جینا تم بِن محال ہے اب
برباد ہو گئے ہم یہ اعتبار کر کے
کھائے ہیں زخم اتنے چھلنی جگر ہوا ہے
تم نے محبتوں کے خود پھول تھے کھلائے
خود ہی اجاڑ ڈالا دل کو بہار کر کے
کیا کھیل تم ہمیشہ ایسے ہی کھیلتے ہو
پھینکا ہے تم نے دل کو ٹکڑے ہزار کر کے
اتنا سمجھ گئے ہم،۔۔ ہرجائی ہو یقیناً
لاؤ گے تم کوئی دل پھر سے شکار کر کے
تم سے شکایتیں بھی کرنے سے فائدہ کیا
ہم کیا کریں گے تم کو اب شرمسار کر کے
یہ دل کے مسئلے ہیں ارشادؔ بچ کے چلنا
سچی ہے بات دیکھو تم خود وِچار کر کے
ارشاد دہلوی
No comments:
Post a Comment