Monday 28 November 2016

پچھتا رہے ہیں تم پر دل کو نثار کر کے

پچھتا رہے ہیں تم پر دل کو نثار کر کے
کیسے بدل گئے ہو قول و قرار کر کے
‘تم نے کہا تھا ’جینا تم بِن محال ہے اب
برباد ہو گئے ہم یہ اعتبار کر کے
کھائے ہیں زخم اتنے چھلنی جگر ہوا ہے
فرصت ملے تو آؤ دیکھو شمار کر کے
تم نے محبتوں کے خود پھول تھے کھلائے
خود ہی اجاڑ ڈالا دل کو بہار کر کے
کیا کھیل تم ہمیشہ ایسے ہی کھیلتے ہو
پھینکا ہے تم نے دل کو ٹکڑے ہزار کر کے
اتنا سمجھ گئے ہم،۔۔ ہرجائی ہو یقیناً
لاؤ گے تم کوئی دل پھر سے شکار کر کے
تم سے شکایتیں بھی کرنے سے فائدہ کیا
ہم کیا کریں گے تم کو اب شرمسار کر کے
یہ دل کے مسئلے ہیں ارشادؔ بچ کے چلنا
سچی ہے بات دیکھو تم خود وِچار کر کے

ارشاد دہلوی

No comments:

Post a Comment