سہارا موجوں کا لے لے کے بڑھ رہا ہوں میں
سفینہ جس کا ہے طوفاں وہ نا خدا ہوں میں
خود اپنے جلوۂ ہستی کا مبتلا ہوں میں
نہ مدعی ہوں نہ کسی کا مدعا ہوں میں
کہ دل سے ٹوٹے ہوئے ساز کی صدا ہوں میں
پڑا ہوں جہاں جس طرح پڑا ہوں میں
جو تیرے در سے نہ اٹھے وہ نقش پا ہوں میں
جہان عشق میں گو پیکر وفا ہوں میں
تیری نگاہ میں جب کچھ نہیں تو کیا ہوں میں
تجلیات کی تصویر کھینچ کر دل میں
تصورات کی دنیا بسا رہا ہوں میں
جنونِ عشق کی نیرنگیاں، ارے توبہ
کبھی خدا اور کبھی بندہ خدا ہوں میں
بدلتی رہتی ہے دنیا میرے خیالوں کی
کبھی ملا ہوں کبھی یار سے جدا ہوں میں
حیات و موت کے جلوے ہیں میری ہستی میں
تغیراتِ دو عالم کا آئینہ ہوں میں
تری عطا کے تصدق ترے کرم کے نثار
کہ اب تو اپنی نظر میں بھی دوسرا ہوں میں
بقا کی فکر نہ اندیشۂ فنا مجھ کو
تعینات کی حد سے گزر گیا ہوں میں
سفینہ جس کا ہے طوفاں وہ نا خدا ہوں میں
خود اپنے جلوۂ ہستی کا مبتلا ہوں میں
نہ مدعی ہوں نہ کسی کا مدعا ہوں میں
دیکھ لو شکل میری کس کا آئینہ ہوں میں
بشر کے روپ میں اک راز کبریا ہوں میں
سمجھ سکے نا فرشتے کہ اور کیا ہوں میں
کچھ آگے عالم ہستی سے گونجتا ہوں میںکہ دل سے ٹوٹے ہوئے ساز کی صدا ہوں میں
پڑا ہوں جہاں جس طرح پڑا ہوں میں
جو تیرے در سے نہ اٹھے وہ نقش پا ہوں میں
جہان عشق میں گو پیکر وفا ہوں میں
تیری نگاہ میں جب کچھ نہیں تو کیا ہوں میں
تجلیات کی تصویر کھینچ کر دل میں
تصورات کی دنیا بسا رہا ہوں میں
جنونِ عشق کی نیرنگیاں، ارے توبہ
کبھی خدا اور کبھی بندہ خدا ہوں میں
بدلتی رہتی ہے دنیا میرے خیالوں کی
کبھی ملا ہوں کبھی یار سے جدا ہوں میں
حیات و موت کے جلوے ہیں میری ہستی میں
تغیراتِ دو عالم کا آئینہ ہوں میں
تری عطا کے تصدق ترے کرم کے نثار
کہ اب تو اپنی نظر میں بھی دوسرا ہوں میں
بقا کی فکر نہ اندیشۂ فنا مجھ کو
تعینات کی حد سے گزر گیا ہوں میں
میں وہ بشر ہوں فرشتے کریں جنہیں سجدہ
اب اس سے آگے خدا جانے اور کیا ہوں میں
پتہ لگائے کوئی کیا میرے پتے کا پتہ
میرے پتے کا پتہ ہے کہ لاپتہ ہوں میں
مجھی کو دیکھ لیں اب تیرے دیکھنے والے
تُو آئینہ ہے مِرا، تیرا آئینہ ہوں میں
میں مٹ گیا ہوں تو پھر کس کا نام ہے بیدمؔ
وہ مل گئے ہیں تو پھر کس کو ڈھونڈتا ہوں میں
بیدم شاہ وارثی
No comments:
Post a Comment