Sunday 27 November 2016

سہارا موجوں کا لے لے کے بڑھ رہا ہوں میں

سہارا موجوں کا لے لے کے بڑھ رہا ہوں میں
سفینہ جس کا ہے طوفاں وہ نا خدا ہوں میں
خود اپنے جلوۂ ہستی کا مبتلا ہوں میں
نہ مدعی ہوں نہ کسی کا مدعا ہوں میں
دیکھ لو شکل میری کس کا آئینہ ہوں میں
یار کی شکل ہے اور یار میں فنا ہوں میں
بشر کے روپ میں اک راز کبریا ہوں میں
سمجھ سکے نا فرشتے کہ اور کیا ہوں میں
کچھ آگے عالم ہستی سے گونجتا ہوں میں
کہ دل سے ٹوٹے ہوئے ساز کی صدا ہوں میں
پڑا ہوں جہاں جس طرح پڑا ہوں میں
جو تیرے در سے نہ اٹھے وہ نقش پا ہوں میں
جہان عشق میں گو پیکر وفا ہوں میں
تیری نگاہ میں جب کچھ نہیں تو کیا ہوں میں
تجلیات کی تصویر کھینچ کر دل میں
تصورات کی دنیا بسا رہا ہوں میں
جنونِ عشق کی نیرنگیاں، ارے توبہ
کبھی خدا اور کبھی بندہ خدا ہوں میں
بدلتی رہتی ہے دنیا میرے خیالوں کی
کبھی ملا ہوں کبھی یار سے جدا ہوں میں
حیات و موت کے جلوے ہیں میری ہستی میں
تغیراتِ دو عالم کا آئینہ ہوں میں
تری عطا کے تصدق ترے کرم کے نثار
کہ اب تو اپنی نظر میں بھی دوسرا ہوں میں
بقا کی فکر نہ اندیشۂ فنا مجھ کو
تعینات کی حد سے گزر گیا ہوں میں
میں وہ بشر ہوں فرشتے کریں جنہیں سجدہ
اب اس سے آگے خدا جانے اور کیا ہوں میں
پتہ لگائے کوئی کیا میرے پتے کا پتہ
میرے پتے کا پتہ ہے کہ لاپتہ ہوں میں
مجھی کو دیکھ لیں اب تیرے دیکھنے والے
تُو آئینہ ہے مِرا، تیرا آئینہ ہوں میں
میں مٹ گیا ہوں تو پھر کس کا نام ہے بیدمؔ
وہ مل گئے ہیں تو پھر کس کو ڈھونڈتا ہوں میں

بیدم شاہ وارثی

No comments:

Post a Comment