Sunday 27 November 2016

زبان شہر پر تازہ کہانی چھوڑ جاتا ہے

زبانِ شہر پر تازہ کہانی چھوڑ جاتا ہے
بچھڑتے وقت وہ اپنی نشانی چھوڑ جاتا ہے
چلا جاتا ہے خود صحرا سے ملنے کیلئے لیکن
ہماری منتظر آنکھوں میں پانی چھوڑ جاتا ہے
در و دیوارِ جسم و جاں کھنڈر سے لگنے لگتے ہیں
کوئی جب شہرِ دل کی حکمرانی چھوڑ جاتا ہے
بہاؤ ہے تِری جانب ہی دریائے محبت کا
ذرا سا رخ بدلتے ہیں، روانی چھوڑ جاتا ہے

ثناء اللہ ظہیر

No comments:

Post a Comment