آیا تِرا خیال تو لب مثلِ گل ہِلے
آہٹ ہوئی تو ایسے لگا جیسے دل ہلے
سوچا تجهے تو حسن کا بہتا ہوا دریا
دیکها تو وقت جیسے رکا اور پَل ہلے
رستے میں دیکهنے کو مناظر کی انتہا
شہروں میں وقت شام صدا گونجتی رہی
پردے ہلے نہ در ہی کهلے اور نہ جل ہلے
انورؔ ایک عمر دشت نوردی میں کٹ گئی
کہسار ہلے، باغ جلے، پر نہ تهل ہلے
انور زاہدی
No comments:
Post a Comment