Tuesday 29 November 2016

راہبر سو گئے ہمسفر سو گئے

راہبر سو گئے، ہم سفر سو گئے 
کون جاگے گا ہم بھی اگر سو گئے
گیسوۓ وقت اب کون سلجھاۓ گا
بے خبر جاگ اٹھے، باخبر سو گئے 
یہ ہمارے مقدر کا اندھیر ہے
جب بھی نزدیک آئی سحر، سو گئے 
مٹ گیا دل سے کیا خوفِ دار و رسن 
لوگ پھولوں پہ کیا سوچ کر سو گئے
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں 
سو گئی قوم جب دیدہ ور سو گئے 
اپنی بربادیاں اپنے ہاتھوں ہوئیں
جاگنا تھا ہمیں، ہم مگر سو گئے 
بے گھروں کو تکلف سے کیا واسطہ 
نیند آئی سرِ رہگزر سو گئے 
وہ گئے گھر کی رعنائیاں بھی گئیں
یوں لگا جیسے دیوار و در سو گئے 
تم تو اعجازؔ پھولوں پہ بے چین ہو 
جن کو سونا تھا وہ دار پر سو گئے 
اعجاز رحمانی​

No comments:

Post a Comment