جل اٹھا باغ اس کی برقِ حسن کی تاثیر سے
پھول اب گلچیں اٹھاتے ہیں تو آتش گیر سے
چھوٹتا ہے کب لہو میرا کسی تدبیر سے
تیغِ جوہردار قاتل ہے سوا زنجیر سے
مست ہے عالم مِرے اشعار کی تاثیر سے
فاش ہو باغِ جہاں میں رازِ دل ممکن نہیں
سیکھے ہیں طرزِ فغاں ہم بلبلِ تصویر سے
گر شبیہ اس گل کی رکھ دیویں مرقع ہو ابھی
عرصۂ محشر فغانِ بلبلِ تصویر سے
بندھ سکے مضموں نہ میری وحشتِ پُر زور کا
مثلِ سودائی کوئی باندھے اگر زنجیر سے
رزق کا کیا غم کہ ہوتا ہے تؤلد بعدِ طفل
پہلے بھرتا ہے خدا پستانِ مادر شِیر سے
شمع ہے وصفِ رخِ پُر نور لکھنے میں قلم
ہے بجا نسبت جو دوں قطگیر کو گلگیر سے
بے گنہ ایذا نہ دے ہم کو صنم بہرِ خدا
امن ہے سودائیوں کو جرم کی تعزیر سے
تھا تو جاں بخشی میں عیسیٰ پر ہوا موسیٰ کا شک
آشکارا جب ہوئی لکنت مِری تقریر سے
سرو قد اس نوجواں کا بس ہے مجھ آزاد کو
شجرۂ ملعونہ مانگوں زاہدا! کس پیر سے
بعدِ مردن بھی تصور ہے کسی شب گرد کا
حشر برپا ہے عدم میں نالۂ شب گیر سے
نرم کرتے دل تِرا گر عشق کھو دیتا نہ عقل
کرتے ہیں پتھر کو پانی شیشہ گر تدبیر سے
زر تصدق کرتے ہیں جو اغنیاء مل بیٹھ کر
کالبد ان کے بنائے ہیں مگر اکسیر سے
مے پرستو! آؤ کر لیں محتسب کو سنگسار
بچ رہے ہیں سنگ کچھ میخانے کی تعمیر سے
موجِ خوں بھی مثلِ برقِ ابر ہے دامن کے ساتھ
جا سکا قاتل نہ میرے خونِ دامنگیر سے
ہے ریاضِ فکرِ ناسخؔ کی جو شادابی یہی
لکھنؤ میں آئے گی روحِ غنی کشمیر سے
امام بخش ناسخ
No comments:
Post a Comment