تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں
امیر بیٹے دعا کی قیمت لگا رہے ہیں
میں جن کو انگلی پکڑ کے چلنا سکھا چکا ہوں
وہ آج میرے عصا کی قیمت لگا رہے ہیں
مِری ضرورت نے فن کو نیلام کر دیا ہے
میں آندھیوں سے مصالحت کیسے کر سکوں گا
چراغ میرے ہوا کی قیمت لگا رہے ہیں
یہاں پہ معراجؔ تیرے لفظوں کی آبرو کیا
یہ لوگ بانگِ درا کی قیمت لگا رہے ہیں
معراج فیض آبادی
No comments:
Post a Comment