Sunday 27 November 2016

تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں

تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں
امیر بیٹے دعا کی قیمت لگا رہے ہیں
میں جن کو انگلی پکڑ کے چلنا سکھا چکا ہوں
وہ آج میرے عصا کی قیمت لگا رہے ہیں
مِری ضرورت نے فن کو نیلام کر دیا ہے
تو لوگ میری انا کی قیمت لگا رہے ہیں
میں آندھیوں سے مصالحت کیسے کر سکوں گا
چراغ میرے ہوا کی قیمت لگا رہے ہیں
یہاں پہ معراجؔ تیرے لفظوں کی آبرو کیا
یہ لوگ بانگِ درا کی قیمت لگا رہے ہیں

معراج فیض آبادی

No comments:

Post a Comment