رخِ حیات ہے شرمندۂ جمال بہت
جمی ہوئی ہے ابھی گردِ ماہ و سال بہت
گریز پا ہے جو مجھ سے تیرا وصال تو کیا
مِرا جنوں بھی ہے آمادۂ زوال بہت
مجھے ہر آن یہ دیتا ہے وصل کی لذت
کتابِ زیست کے ہر اک ورق پہ روشن ہیں
تِری فسردہ نگاہی کے خد و خال بہت
پلٹ گئے جو پرندے تو پھر گلہ کیا ہے
ہر ایک شاخِ شجر پہ بچھے ہیں جال بہت
تمہیں ہے ناز اگر اپنے حسنِ سرکش پر
تو میرا عشق بھی ہے رُوکشِ جمال بہت
اذانِ صبح کی ہر لے کے تار ٹوٹ گئے
فروغِ ظلمتِ شب کا یہ ہے کمال بہت
کسی بھی پیاس کے مارے کی پیاس بجھ نہ سکی
سمندروں میں تو آتے رہے اچھال بہت
بخش لائلپوری
No comments:
Post a Comment