وہ شوخ اور دے مجھے ساغر شراب کا
اب کس کو ہے خیال عذاب و ثواب کا
بے چین ہو کے بزم سے آخر وہ اٹھ گئے
دیکھا گیا نا حال میرے اضطراب کا
کہنے چلا ہے یار سے بے تابیوں کا حال
رندوں میں عین وقت پر آۓ ہیں شیخ جی
واللہ! ذکرِ خیر ابھی تھا حباب کا
اب آپ پر نثار کوئی کس طرح نا ہو
یہ حسن یہ جمال یہ عالم شباب کا
ظالم نے ذکرِ روزِ جزا سن کے رکھ دیا
ہو گا حساب کیا ستمِ بے حساب کا
اس دلدہی سے اور بھی دکھتا ہے میرا دل
پوچھو نا مجھ سے حال میرے اضطراب کا
قاصد کو قتل کر کے وہاں کوئی مطمئن
ہے منتظر یہاں کوئی خط کے جواب کا
دیکھو تو آ کے تم دلِ پُر شوق کی بہار
سینے میں ایک پھول کھلا ہے گلاب کا
وعدے کے شب وہ وعدہ شکن اور میرا گھر
کیا جانے جاگتا ہوں کہ عالم ہے خواب کا
اس بت کو چھیڑ چھیڑ کے ہوتا ہوں ہمکلام
چسکا برا پڑا ہے سوال و جواب کا
کیا آپ کو سنائیں دلِ مضطرب کا حال
کیا آپ کو بتائیں سبب اضطراب کا
مجھ سے لڑے نگاہ تو لڑنے کا لطف ہے
مجھ سے لپٹ پڑو تو مزا ہے عتاب کا
بجلی سی اک چمک کے گری کوہِ طور پر
گوشہ الٹ گیا جو کسی کے نقاب کا
کہہ سن کے شیخ جی کو پلا دی شراب آج
یہ عمر بھر میں کام ہوا ہے ثواب کا
چلمن اٹھاؤ سامنے آ کر ہو ہمکلام
پردے سے لطف کیا ہے سوال و جواب کا
بگڑے بہت وہ آج مگر کچھ نا کہہ سکے
بوسہ جو لے لیا دہنِ لاجواب کا
روزِ حساب کا اسے اے ہجرؔ خوف کیا
جو ہو غلام شافعِ یوم الحساب کا
ہجر شاہجہانپوری
نواب ناظم علی خان
No comments:
Post a Comment