اٹھتا ہوا ہستی کا پردہ نظر آتا ہے
اب جلوہ حقیقت میں جلوہ نظر آتا ہے
ہر قطرے میں دریا کی موجیں نظر آتی ہیں
ہر بندے کی صورت میں مولا نظر آتا ہے
اس صورتِ ظاہر کے نقشے کو مٹا پہلے
کیا کوئی کسی پر اب دیوانہ نہیں ہوتا؟
سنسان جو مدت سے صحرا نظر آتا ہے
کیا پوچھتے ہو ان کے جلوے کی فراوانی
ہم دیکھ نہیں سکتے، اتنا نظر آتا ہے
ان کے رخِ روشن کو جس روز سے دیکھا ہے
خورشید بھی بیدمؔ کو ذرہ نظر آتا ہے
بیدم شاہ وارثی
No comments:
Post a Comment