Sunday, 27 November 2016

اٹھتا ہوا ہستی کا پردہ نظر آتا ہے

اٹھتا ہوا ہستی کا پردہ نظر آتا ہے
اب جلوہ حقیقت میں جلوہ نظر آتا ہے
ہر قطرے میں دریا کی موجیں نظر آتی ہیں 
ہر بندے کی صورت میں مولا نظر آتا ہے
اس صورتِ ظاہر کے نقشے کو مٹا پہلے 
پھر دیکھ تجھے تجھ میں، کیا کیا نظر آتا ہے
کیا کوئی کسی پر اب دیوانہ نہیں ہوتا؟
سنسان جو مدت سے صحرا نظر آتا ہے
کیا پوچھتے ہو ان کے جلوے کی فراوانی
ہم دیکھ نہیں سکتے، اتنا نظر آتا ہے
ان کے رخِ روشن کو جس روز سے دیکھا ہے 
خورشید بھی بیدمؔ کو ذرہ نظر آتا ہے

بیدم شاہ وارثی

No comments:

Post a Comment