Wednesday, 30 November 2016

میری متاع سوز غم دِل نہیں رہا

میری متاع، سوزِ غمِ دل نہیں رہا 
میں روزگارِ عشق کے قابل نہیں رہا
کب سے یہ سر ہے دوش پر اپنے وبالِ دوش
کیا شہر بھر میں ایک بھی قاتل نہیں رہا
طے کی شکستِ دل سے رہِ اضطرابِ دل 
یہ مرحلہ بھی خیر سے مشکل نہیں رہا
دیکھیں ہیں چشمِ غیر سے عیب و ہنر تمام
خود آگہی سے میں کبھی غافل نہیں رہا
حاصل مراد کوشش مشکور سے نہیں
جادہ بھی اب وسیلۂ منزل نہیں رہا
سرگشتہ روحِ قیس ابھی تک ہے دشت میں
ہر چند، وہ سوار، وہ محمل نہیں رہا
جس دن سے دی گئی ہے شکست اپنے آپ کو
اس دن سے، کوئی مدِ مقابل نہیں رہا
پیہم ملی ہے عزتِ رسوائی عشق میں
کس روز یہ شرف مجھے حاصل نہیں رہا
سیراب موج موج سے رہنے کے باوجود
کب تشنہ کام بحر سے ساحل نہیں رہا
کیا حق کہ حق نہ رہنے کا شکوہ کرے کوئی
باطل بھی، حق تو یہ ہے کہ باطل نہیں رہا
اب حسن کو ہے دیدۂ مشتاق کی تلاش
شاید، اک آئینہ بھی مقابل نہیں رہا
تابؔش یہ خوف ہے کہیں خنجر بکف نہ ہوں
گردن میں اب جو ہاتھ حمائل نہیں رہا

تابش دہلوی

No comments:

Post a Comment