Tuesday 29 November 2016

تم کہاں جا کے مری زحمتِ جاں کو سمجھو

تم کہاں جا کے مِری زحمتِ جاں کو سمجھو
مجھ میں بس جاؤ، مِرے دردِ نہاں کو سمجھو
ایسی افتاد تھی لب سی لیے ہم نے، لیکن
ہم پہ جو بیت گئی، اس کی زباں کو سمجھو
ہم کو خوش آیا ہے یوں جاں کا زیاں اب کے برس
چپ رہو تم بھی اگر جاں کے زیاں کو سمجھو
یہ بھی سچ ہے کہ بتوں میں بھی دھڑکتے دل ہیں
تم حرم میں بھی کبھی حسنِ بتاں کو سمجھو
شکر کرنا ہے تو پھر پھوٹ کے رو لو اک شب
خشک آنکھوں کی مگر طرزِ فغاں کو سمجھو
مجھ سے کل رات کوئی نیند میں کہتا تھا متینؔ
خواب دیکھو نہ، کبھی اس کے زیاں کو سمجھو

اقبال متین

No comments:

Post a Comment