Monday 28 November 2016

شور اٹھتا ہے ندی نالوں میں دریاؤں میں

شور اٹھتا ہے ندی نالوں میں دریاؤں میں
چپ سمندر ہے کہیں اپنی ہی سیماؤں میں
ہر گھڑی کیسے بدل جاتے ہیں منظر یارو
زندگی دھوپ میں ہوتی ہے کبھی چھاؤں میں
ہر کوئی ہو کے ہی مجبور یہاں رقصاں ہے
وقت نے باندھ دئیے گھنگرو اگر پاؤں میں
کھیت کھلیانوں میں سورج کی جب اتریں کرنیں
شبنمی قطرے دھنک بن گئے ہر گاؤں میں
زندگی دیکھو نہ غفلت میں گزرنے پائے
گم سدا رہتے ہو تم کون سی دنیاؤں میں
رب کو پانے کے لیے لوگوں کا دل جیتو خیالؔ
’’مسجدوں میں اسے ڈھونڈو، نہ کلیساؤں میں‘‘

اسماعیل اعجاز خیال

No comments:

Post a Comment