شور اٹھتا ہے ندی نالوں میں دریاؤں میں
چپ سمندر ہے کہیں اپنی ہی سیماؤں میں
ہر گھڑی کیسے بدل جاتے ہیں منظر یارو
زندگی دھوپ میں ہوتی ہے کبھی چھاؤں میں
ہر کوئی ہو کے ہی مجبور یہاں رقصاں ہے
کھیت کھلیانوں میں سورج کی جب اتریں کرنیں
شبنمی قطرے دھنک بن گئے ہر گاؤں میں
زندگی دیکھو نہ غفلت میں گزرنے پائے
گم سدا رہتے ہو تم کون سی دنیاؤں میں
رب کو پانے کے لیے لوگوں کا دل جیتو خیالؔ
’’مسجدوں میں اسے ڈھونڈو، نہ کلیساؤں میں‘‘
اسماعیل اعجاز خیال
No comments:
Post a Comment