Sunday, 27 November 2016

سکوں ٹوٹا چلی ٹھنڈی ہوا آہستہ آہستہ

سکوں ٹوٹا چلی ٹھنڈی ہوا آہستہ آہستہ
بدلنے کو ہے یہ رنگ فضا آہستہ آہستہ
جنہیں ریگِ حوادث کی تہوں نے ڈھانپ رکھا تھا
ابھرنے کو ہیں پھر وہ نقشِ پا آہستہ آہستہ
وہ خوں جس نے ہمارے شہر کی مٹی کو سینچا تھا
اُگے گا صورتِ برگِ حنا آہستہ آہستہ
سوادِ صحنِ گلشن میں سکوتِ مرگ ٹوٹا ہے
اٹھے ہے سرخئ گل سے صدا آہستہ آہستہ
زمانے کی رگوں میں خونِ تازہ سرسراتا ہے
ہُوا ہر شخص آتش زیر پا آہستہ آہستہ 
وہ جس کی داستانیں عرصۂ دار و رسن تک تھیں
چلا آتا ہے وہ رنگیں ادا آہستہ آہستہ

ظہیر کاشمیری

No comments:

Post a Comment