سکوں ٹوٹا چلی ٹھنڈی ہوا آہستہ آہستہ
بدلنے کو ہے یہ رنگ فضا آہستہ آہستہ
جنہیں ریگِ حوادث کی تہوں نے ڈھانپ رکھا تھا
ابھرنے کو ہیں پھر وہ نقشِ پا آہستہ آہستہ
وہ خوں جس نے ہمارے شہر کی مٹی کو سینچا تھا
سوادِ صحنِ گلشن میں سکوتِ مرگ ٹوٹا ہے
اٹھے ہے سرخئ گل سے صدا آہستہ آہستہ
زمانے کی رگوں میں خونِ تازہ سرسراتا ہے
ہُوا ہر شخص آتش زیر پا آہستہ آہستہ
وہ جس کی داستانیں عرصۂ دار و رسن تک تھیں
چلا آتا ہے وہ رنگیں ادا آہستہ آہستہ
ظہیر کاشمیری
No comments:
Post a Comment