Sunday 27 November 2016

سخت حیرت ہے کہ اب مبہم سی تصویروں میں ہے

سخت حیرت ہے کہ اب مبہم سی تصویروں میں ہے
کل جو میرِ کارواں تھا آج رہگیروں میں ہے
صاف گوئی کے لیے ہوں ہر سزا کا مستحق
اور کیا تقصیر کوئی میری تقصیروں میں ہے
ایسا لگتا ہے کہ ہم دونوں رہے ہیں ہم سفر
اسکا چہرہ بھی مِرے ماضی کی تصویروں میں ہے
اُس کے خط پڑھ کر مِرا دل جھومتا ہے بے طرح
کیا بتاؤں کتنی خوشبو اس کی تحریروں میں ہے
اتنی فرصت ہی کہاں، فردا پہ ہو اس کی نظر
ہر بشر الجھا ہوا ماضی کی تصویروں میں ہے
دیکھتے رہئے کہ حاصل ہو اسے کب تک نجات
زندگی جکڑی ہوئی سانسوں کی زنجیروں میں ہے
کچھ ادھورے خواب ذہن و دل پہ ہیں چھائے ہوئے
کیا کہوں کتنی کشش بے رنگ تصویروں میں ہے
عرشؔ میری زندگی گزری ہے جن حالات سے
سر بہ سر ہر عکس ان کا میری تحریروں میں ہے

عرش صہبائی

No comments:

Post a Comment