سخت حیرت ہے کہ اب مبہم سی تصویروں میں ہے
کل جو میرِ کارواں تھا آج رہگیروں میں ہے
صاف گوئی کے لیے ہوں ہر سزا کا مستحق
اور کیا تقصیر کوئی میری تقصیروں میں ہے
ایسا لگتا ہے کہ ہم دونوں رہے ہیں ہم سفر
اُس کے خط پڑھ کر مِرا دل جھومتا ہے بے طرح
کیا بتاؤں کتنی خوشبو اس کی تحریروں میں ہے
اتنی فرصت ہی کہاں، فردا پہ ہو اس کی نظر
ہر بشر الجھا ہوا ماضی کی تصویروں میں ہے
دیکھتے رہئے کہ حاصل ہو اسے کب تک نجات
زندگی جکڑی ہوئی سانسوں کی زنجیروں میں ہے
کچھ ادھورے خواب ذہن و دل پہ ہیں چھائے ہوئے
کیا کہوں کتنی کشش بے رنگ تصویروں میں ہے
عرشؔ میری زندگی گزری ہے جن حالات سے
سر بہ سر ہر عکس ان کا میری تحریروں میں ہے
عرش صہبائی
No comments:
Post a Comment