Wednesday 30 November 2016

ظلم سہتے ہیں دہائی نہیں دیتا کوئی

ظلم سہتے ہیں دُہائی نہیں دیتا کوئی
گرمئ تلخ نوائی نہیں دیتا کوئی
مقتلِ شہر میں اب قہر کا سناٹا ہے
جسم سولی پہ دکھائی نہیں دیتا کوئی
جو بھی آیا نئے مجلس ہی سجانے آیا
قیدِ پیہم سے رہائی نہیں دیتا کوئی
دوستو! ہر کڑی منزل سے گزرنا ہو گا
گھر میں بیٹھے تو خدائی نہیں دیتا کوئی
دوست ہوتا ہی نہیں چھوڑ کے جانے والا
دوست بن کر تو جدائی نہیں دیتا کوئی
کس کی آغوشِ محبت میں پناہیں ڈھونڈیں
دورِ ظلمت میں دکھائی نہیں دیتا کوئی
خود ہی مجبورِ طلب ہوتا ہے انساں ورنہ
بخؔش کشکولِ گدائی نہیں دیتا کوئی

بخش لائلپوری

No comments:

Post a Comment