Wednesday 30 November 2016

ذوالفقار حیدری دوسرا حصہ

عارفانہ کلام منقبت سلام
ذوالفقار حیدری دوسرا حصہ

خوش طرز و خوش صفات تھی شمشیرِ حیدری
آئینۂ ثبات تھی شمشیرِ حیدری
حلالِ مشکلات تھی شمشیرِ حیدری
حکمت کی ایک بات تھی شمشیرِ حیدری
ظلمت سے محوِ جنگ تھی تنویر کے لیے
تخریب کرتی پھرتی تھی تعمیر کے لیے
باطل کے سرکشوں کے لیے آہنی کمند
ایماں کے غمزدوں کے لیے قلبِ دردمند
اس کی نہ ایک ضرب نہ واعظ کے لاکھ پند
ہوتی تھی رزم گاہ میں اس طرح سربلند
سایہ فضا میں سیفِ اخئ رسول کا
جیسے دعا کو ہاتھ اٹھا ہو بتول کا
ہر جنگ میں نبی کی مددگار ہی رہی
ایماں کی دوست، دین کی غمخوار ہی رہی
مظلوم آدمی کی طرفدار ہی رہی
مالک کی طرح صاحبِ کردار ہی رہی
غصے میں سر حریف کا حاصل نہیں کیا
ذاتی غرض کو جنگ میں شامل نہیں کیا
تیغِ علی کی رفعتِ منزل نہ پوچھئے
کتنی تھی کارِ خیر میں کامل نہ پوچھئے
کیسی تھی اہلِ ظلم کی قاتل نہ پوچھئے
سارے مجاہدات کا حاصل نہ پوچھئے
خندق میں ایک ضرب تھی اس آن بان کی
طاعت نثار ہو گئی دونوں جہان کی
خسرو کی آرسی نہ سکندر کا آئینہ
تھی ذوالفقار سیرتِ حیدر کا آئینہ
بہرِ نجات، رحمتِ داور کا آئینہ
لطفِ خدا و خلقِ پیمبر کا آئینہ
امرت بھرا تھا تیغِ علی کی زبان میں
اسلام اس مٹھاس سے پھیلا جہان میں

شمیم کرہانی

No comments:

Post a Comment