Wednesday 30 November 2016

ذوالفقار حیدری آٹھواں حصہ

عارفانہ کلام منقبت سلام
ذوالفقار حیدری آٹھواں حصہ

خونی تھی ذوالفقار، نہ قاتل تھی ذوالفقار
علمِ کتابِ پاک پہ عامل تھی ذوالفقار
دل ہنس پڑے، جدا حسد و کینہ ہو گئے
سینوں سے دور غصۂ دیرینہ ہو گئے
قلبِ جہاں، خلوص کا گنجینہ ہو گئے
لات و منات قصۂ پارینہ ہو گئے
جھگڑا چکا کے کفر کا، انصاف کر گئی
میدان اہلِ حق کے لیے صاف کر گئی
مدِ نظر تھی بے کس و مغموم کی مدد
تھی فرضِ عین، دیدۂ محروم کی مدد
اس کی مدد کو مانیے معصوم کی مدد
تیغِ علی تھی، کرتی تھی مظلوم کی مدد
اہلِ ستم کے واسطے بجلی فنا کی تھی
شمشیرِ حیدری تھی کہ لاٹھی خدا کی تھی
فاتح تھی جشنِ فتح مناتی چلی گئی
ہر معرکے میں دھوم مچاتی چلی گئی
باطل کے پرچموں کو جھکاتی چلی گئی
آذر کے بت کدوں کو گراتی چلی گئی
یوں بت پرست قوم کی چھاتی فگار کی
ہے آج تک دلوں میں چبھن ذوالفقار کی
آوازِ جاں گداز تھی اغیار کے لیے
پیغامِ دل نواز تھی دیں دار کے لیے
حرفِ ظفر تھی حیدرِ کرّار کے لیے
حصنِ حصیں تھی احمدِ مختار کے لیے
تیغِ دودم امینِ جلال و جمال تھی
تلوار تھی علی کی، محمدﷺ کی ڈھال تھی
کرتی تھی دفع دل سے نفاق و حسد کا زہر
شہرہ تھا اس کی روح نوازی کا شہر شہر
دوڑا رہی تھی ایک نئی زندگی کی لہر
جولاں تھا ارتقا کی طرف کاروانِ دہر

شمیم کرہانی

No comments:

Post a Comment