شبِ سیاہ میں روشن خیال میرا تھا
میں کچھ نہیں تھا مگر یہ کمال میرا تھا
مِرے لہو کی چمک تھی نگار خانوں میں
تجوریوں کے اندر جو تھا مال میرا تھا
محاذِ فکر پہ کوئی بھی ڈٹ کے جم نہ سکا
ہوا نے کاٹ دیا ہر بلند قامت کو
ہوا کے لہجے میں جاہ و جلال میرا تھا
جسے کریدا وہی گھل رہا تھا اندر سے
ہر ایک جسم میں عکسِ جمال میرا تھا
اچک کے لے گئے سگ ہائے شہرِیار جسے
اُطاقِ جاں میں وہ رزق حلال میرا تھا
بخش لائلپوری
No comments:
Post a Comment