دارا گئے جہاں سے، سکندر چلے گئے
چنگیز جیسے کتنے تونگر چلے گئے
ہٹلر بھی ایک قوم نہیں ختم کر سکا
اس جیسے بے شمار ستمگر چلے گئے
ان کی بساط کیا ہے جو چلتی ہیں آندھیاں
مٹتا نہیں کسی سے کسی قوم کا نشاں
تاراج کرنے والے سکندر چلے گئے
دریاؤں میں روانی ہے موجیں بھی ہیں وہی
طوفان کچھ اٹھا کے سمندر چلے گئے
رہتے ہیں رعب ظالم و جابر کے مختصر
تاؤ میں رہ کے کتنے مچھندر چلے گئے
جو قوم اتفاق و اخوت پسند تھی
ارشادؔ اس کے سارے دلدر چلے گئے
ارشاد دہلوی
No comments:
Post a Comment