Sunday 27 November 2016

یادگار بادہ و پیمانہ ہیں

یادگارِ بادہ و پیمانہ ہیں
ہم چراغِ کشتۂ میخانہ ہیں
چند تنکوں میں نہ تھا لطفِ بہار
چند شعلے زینتِ کاشانہ ہیں
ہر حقیقت ہے فریبِ اعتبار
یہ حسیں جلوے اگر افسانہ ہیں
ہم بھی مہر و ماہ سے باتیں کریں
ہم بھی عکسِ جلوۂ جانانہ ہیں
شب جو تھے محوِ طوافِ شمعِ ناز
صبحدم خاکسترِ پروانہ ہیں
بت پرستو! ہم ہیں مسجودِ نظر
ہم غرورِ لعبتِ بت خانہ ہیں

ظہیر کاشمیری

No comments:

Post a Comment