Wednesday 30 November 2016

بات کرنے میں گزرتی ہے ملاقات کی رات

بات کرنے میں گزرتی ہے ملاقات کی رات
بات ہی کیا ہے جو رہ جاؤ یہیں رات کی رات
اس شبِ تار میں جانے کی اجازت کیا خوب
اور پھر اس پر یہ طرہ ہے کہ برسات کی رات
تکیۂ خشتِ خمِ مۓ فرشِ زمیں بسترِ خواب
چین سے کٹتی ہے رِندانِ خرابات کی رات
سرد مہری نے تِری مجھ کو رلا رکھا ہے
کبھی جاڑے میں بھی آ جاتی ہے برسات کی رات
حور کے شوق میں تڑپا کئے ہم تو واعظ
کہئے کس طرح کٹی قبلۂ حاجات کی رات
غیر کا ذکر کبھی ختم ہو گا کہ نہیں
یہ شبِ وصل ہے یا حرف و حکایات کی رات
ذکرِ تقصیرِ گزشتہ نہیں تعزیر سے کم
یہ ملاقات کی شب ہے کہ مکافات کی رات
اور مہماں ہے دو چار گھڑی کا بیخودؔ
آپ آرام کریں آج یہیں رات کی رات

بیخود دہلوی

No comments:

Post a Comment