بات کرنے میں گزرتی ہے ملاقات کی رات
بات ہی کیا ہے جو رہ جاؤ یہیں رات کی رات
اس شبِ تار میں جانے کی اجازت کیا خوب
اور پھر اس پر یہ طرہ ہے کہ برسات کی رات
تکیۂ خشتِ خمِ مۓ فرشِ زمیں بسترِ خواب
سرد مہری نے تِری مجھ کو رلا رکھا ہے
کبھی جاڑے میں بھی آ جاتی ہے برسات کی رات
حور کے شوق میں تڑپا کئے ہم تو واعظ
کہئے کس طرح کٹی قبلۂ حاجات کی رات
غیر کا ذکر کبھی ختم ہو گا کہ نہیں
یہ شبِ وصل ہے یا حرف و حکایات کی رات
ذکرِ تقصیرِ گزشتہ نہیں تعزیر سے کم
یہ ملاقات کی شب ہے کہ مکافات کی رات
اور مہماں ہے دو چار گھڑی کا بیخودؔ
آپ آرام کریں آج یہیں رات کی رات
بیخود دہلوی
No comments:
Post a Comment