Wednesday 30 November 2016

چلی ہوا تو کوئی یاد آ گیا پھر سے

چلی ہوا تو کوئی یاد آ گیا پھر سے
اڑی جو خاک تو آنسو رلا گیا پھر سے
ہوا کی طرح لہکتا تھا صحن گلشن میں
مہکتے سانس کو جھونکا بنا گیا پھر سے
ہر ایک دل میں تھا روشن چراغِ جاں کی طرح
ہُوا یہ کیا کہ دِئیے سب بجھا گیا پھر سے
یہ علم تھا کہ ہے پت جھڑ کی رُت بہت ظالم
اڑے گی خاک، خبر یہ سنا گیا پھر سے
فضا اداس ہے، روشن نہیں کہیں بھی چراغ
کہ جیسے شامِ غریباں لگا گیا پھر سے
رہے گا یاد وہ انور زماں مکاں کو بھی
اٹھے گا جب کوئی طوفاں بتا گیا پھر سے

انور زاہدی

No comments:

Post a Comment