بشر کو مشعلِ ایماں سے آگہی نہ ملی
دھواں وہ تھا کہ نگاہوں کو روشنی نہ ملی
خوشی کی معرفت اور غم کی آگہی نہ ملی
جسے جہاں میں محبت کی زندگی نہ ملی
یہ کہہ کے آخرِ شب شمع ہو گئی خاموش
لبوں پہ پھیل گئی آ کے موجِ غم اکثر
بچھڑ کے تجھ سے ہنسی کی طرح ہنسی نہ ملی
ثبات پا نہ سکے گا کوئی نظامِ چمن
فسردہ غنچوں کو جس میں شگفتگی نہ ملی
فلک کے تاروں سے کیا دور ہو گی ظلمتِ شب
جب اپنے گھر کے چراغوں سے روشنی نہ ملی
ابھی شباب ہے کر لوں خطائیں جی بھر کے
پھر اس مقام پہ عمرِ رواں ملی نہ ملی
وہ قافلے کہ فلک جن کے پاؤں کا تھا غبار
رہِ حیات سے بھٹکے تو گرد بھی نہ ملی
وہ تیرہ بخت حقیقت میں ہے جسے ملاؔ
کسی نگاہ کے سائے کی چاندنی نہ ملی
آنند نرائن ملا
No comments:
Post a Comment