Sunday 27 November 2016

خوف کی علامت ہے رات کا سوا ہونا

خوف کی علامت ہے رات کا سوا ہونا
اس لئے تو لازم ہے ہاتھ میں دِیا ہونا
تیری یاد سے غافل کس طرح بھلا ممکن
جب تلک ہے تن پہ سر سانس کا روا ہونا
حاجتیں ضروری ہیں زندگی کے دامن میں
زندگی میں لازم ہے زندہ و بقا ہونا
شہر کے مکاں کہنہ گلیوں کی زباں ساکت
رسم اک پرانی ہے مر کے ہی جلا ہونا
شہر میں کسے انورؔ ڈھونڈتے پھرو گے تم
ہیں نقاب میں سب ہی کس سے کیا گلہ ہونا

انور زاہدی

No comments:

Post a Comment