Tuesday, 29 November 2016

کوزہ گر​ کہیں قومیت ہے کہیں ملک و ملّت کی زنجیر ہے

کوزہ گر​

کہیں قومیت ہے کہیں ملک و ملّت کی زنجیر ہے
کہیں مذہبیت، کہیں حریت، ہر قدم پر عناں گیر ہے
اگر میں یہ پردہ ہٹا دوں جسے لفظ ماضی سے تعبیر کرتے رہے ہیں
اگر میں حدودِ زماں و مکاں سب مٹا دوں
اگر میں یہ دیواریں جتنی کھڑی ہیں گرا دوں
تو ہر قید اٹھ جائے، یہ زندگی جو قفس ہے

یوں ہی دیکھتے دیکھتے تیلیاں سب بکھیر جائیں اس کی
اور انسان اپنے صحیح روپ میں ہر جگہ دے دکھائی
کسی غار کے منہ پہ بیٹھا، کسی سخت الجھن میں غلطاں
کہیں شعلہ دریافت کر نے کی خواہش میں پیچاں
کہیں زندگی کو نظام و تسلسل میں لانے کا خواہاں
جہاں کو حسیں دیکھنے کی تمنا میں کوشاں
زمیں دور تک ایسے پھیلی ہوئی ہے
کشادہ کوئی خوانِ نعمت ہے جیسے
جہاں کوئی پہرہ نہیں کوئی تخصیص و تفریق انساں
یہ سب کی ہے سب کے لیے ہے یہاں سب ہیں مدعو
میں اس شخص کو ڈھونڈتا ہوں جو بانئ شر ہے
جو رشیوں، رسولوں کی محنت کو برباد کرتا رہا ہے
میں اس شخص کو ڈھونڈتا ہوں جو ہر دور میں بے محابا
نئے بھیس میں سامری بن کے آتا ہے اور موہتا ہے دلوں کو
اسے ڈھونڈتا ہوں میں جس نے ہر اِک خوان نعمت یہ پہرے لگائے
زمیں کو زمیں سے الگ کر دیا سیکڑوں نام دے کر
اجارہ کی بنیاد ڈالی، کیا جاری پروانۂ راہ داری
بجائے حسیں اعلیٰ قدروں کے تاسیس عالم
رکھی مصلحت پر، مفادات پر، خود پرستی پہ ساری
اور انسان کو خام اشیا میں تبدیل کر کے
بہت پہلے اس سے کہ انسان انسان بنتا
اسے ایک شطرنج کا چوبی مہرہ بنا کر
مقابل کھڑا کر دیا ایک کو دوسرے کے
کہاں ہے وہ قوت وہ ہستی جو یوں عصر کی روح بن کر
فضاؤں کو مسموم کرتی ہے لاشوں سے بھر دیتی ہے خندقوں کو
میں للکارتا ہوں اسے وہ اگر اتنا ہی جادو گر ہے
تو سورج کو مشرق کے بدلے نکالے کبھی آ کے مغرب سے اِک لمحہ بھر کو
ہواؤں کی تاثیر بدلے پہاڑوں کو لاوے میں تبدیل کر دے
سمندر سکھا دے، ہر اِک جلتے صحرا کو زرخیز میداں بنا دے
اصول مشیت بدل دے، زمین آسمانوں کے سب سلسلے توڑ ڈالے
مگر میں اسے کیسے للکار سکتا ہوں، یہ تو خدا ہے
حیات و نمو کی وہ قوت، تغیر جو خود سامری ہے
یہ وہ کوزہ گر ہے جو خود مسخ کرتا ہے چہرے بنا کر
یہ وہ کوزہ گر ہے اسی ایک مٹی کو ہر بار متھ کر
بنا کر نئے ظرف رکھتا ہے کچھ دیر شیشیوں کے پیچھے سجا کر
انہیں خود ہی پھر توڑ دیتا ہے سب ظرف کوزے قوانین اخلاق سارے
جہاں اتنی شکلیں بنائی بگاڑی ہیں یہ زندگی کا نیا بت بھی اِک دن
فراموش گاری کے اس ڈھیر میں پھینک دے گا جہاں ایسی کتنی ہی چیزیں پڑی ہیں
کہ یہ چاک تو چل رہا ہے یوں ہی آفرینش سے گردش میں ہے اور رہے گا

اختر الایمان

No comments:

Post a Comment