Wednesday 30 November 2016

جس میں وہ جلوہ نما تھا دل شیدا ہے وہی

جس میں وہ جلوہ نما تھا دلِ شیدا ہے وہی
ہم سے پردہ ہے مگر محملِ لیلا ہے وہی
جو نکل جائے تمنا نہیں کہتے اس کو
جو کھٹکتی رہے پہلو میں تمنا ہے وہی
لے چلے دل تِرا دغِ محبت والے
جان دے کر جو خریدا ہے یہ سودا ہے وہی
عشق کو حسن سے بڑھ کر ہے زمانے میں قیام
گل تو دو دن نہ رہا بلبلِ شیدا ہے وہی
نام بیخؔود ہے تو میخوار بھی ہو گا وہ ضرور
پارسا ہم تو سمجھتے نہیں کہتا ہے وہی 

بیخود دہلوی

No comments:

Post a Comment