جس میں وہ جلوہ نما تھا دلِ شیدا ہے وہی
ہم سے پردہ ہے مگر محملِ لیلا ہے وہی
جو نکل جائے تمنا نہیں کہتے اس کو
جو کھٹکتی رہے پہلو میں تمنا ہے وہی
لے چلے دل تِرا دغِ محبت والے
عشق کو حسن سے بڑھ کر ہے زمانے میں قیام
گل تو دو دن نہ رہا بلبلِ شیدا ہے وہی
نام بیخؔود ہے تو میخوار بھی ہو گا وہ ضرور
پارسا ہم تو سمجھتے نہیں کہتا ہے وہی
بیخود دہلوی
No comments:
Post a Comment