Sunday 27 November 2016

چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے

چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے
وہ تیرگی ہے کہ اب خواب تک دکھائی نہ دے
بہت ستاتے ہیں رشتے جو ٹوٹ جاتے ہیں
خدا کسی کو بھی توفیقِ آشنائی نہ دے
میں ساری عمر اندھیروں میں کاٹ سکتا ہوں
میرے دِیوں کو مگر روشنی پرائی نہ دے
اگر یہی تیری دنیا کا حال ہے مالک
تو میری قید بھلی ہے مجھے رہائی نہ دے
دعا یہ مانگی ہے سہمے ہوۓ مؤرخ نے
کہ اب قلم کو خدا سرخ روشنائی نہ دے

معراج فیض آبادی

No comments:

Post a Comment