ہم غزل میں تِرا چرچا نہیں ہونے دیتے
تیری یادوں کو بھی رسوا نہیں ہونے دیتے
کچھ تو ہم خود بھی نہیں چاہتے شہرت اپنی
اور کچھ لوگ بھی ایسا نہیں ہونے دیتے
عظمتیں اپنے چراغوں کی بچانے کے لیے
آج بھی گاؤں میں کچھ کچے مکانوں والے
گھر میں ہمسائے کے فاقہ نہیں ہونے دیتے
ذکر کرتے ہیں،۔ تِرا نام نہیں لیتے ہیں
ہم سمندر کو جزیرہ نہیں ہونے دیتے
مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
معراج فیض آبادی
No comments:
Post a Comment