Sunday 27 November 2016

فصیل جاں میں دریچہ لگانے والا ہوں

فصیلِ جاں میں دریچہ لگانے والا ہوں
میں تجھ سے اور تعلق بڑھانے والا ہوں
تِرے لیے مجھے لاہور سے محبت ہے
یہ بات سارے جہاں کو بتانے والا ہوں
سہیلیوں میں سنائے گی تُو غزل میری
گٹار پر میں جسے گنگنانے والا ہوں
کسی نے بالیاں بھیجی ہیں تجھ کو تحفے میں
کسی کو میں بھی تو نیکلس دلانے والا ہوں
نہ جانے کون سی منزل یہ راہِ عشق کی ہے
میں شہر چھوڑ کے جنگل کو جانے والا ہوں
سنا تو ہے کہ دعاؤں سے لوگ مِلتے ہیں
سو، میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے والا ہوں
کسی کی یاد میں تُو بھی دِئیے جلاتی ہے
چراغ میں بھی ندی میں بہانے والا ہوں
قمرؔ! میں ایک جھلک اسکی دیکھنے کے لیے
کسی مزار پہ چادر چڑھانے والا ہوں

قمر ریاض

No comments:

Post a Comment