Tuesday, 29 November 2016

جسم پہ اپنے زخم سجانا سب کے بس کی بات نہیں

جسم پہ اپنے زخم سجانا سب کے بس کی بات نہیں
رت میں خزاں کی پھول کھلانا سب کے بس کی بات نہیں
خون سے اپنے دیپ جلانا سب کے بس کی بات نہیں
اپنے گھر کو آگ لگانا سب کے بس کی بات نہیں
یہ تو کام اسی کا ہے جو عشق کی آگ میں جل جائے
ذرے سے سورج بن جانا سب کے بس کی بات نہیں 
سیلابِ دریا سے گزرنا کام بہت ہی مشکل ہے 
لیکن اپنی ناؤ جلانا سب کے بس کی بات نہیں 
پیار کا جذبہ انسانوں میں کم ہے آج بہت ہی کم 
نفرت کی دیوار گرانا سب کے بس کی بات نہیں
ہنستے ہوئے پھولوں کو مسلنا کوئی بھی مشکل کام نہیں
انگاروں کو پھول بنانا سب کے بس کی بات نہیں
اپنے چہروں پر تو چہرے لوگ سجا ہی لیتے ہیں
لیکن آئینہ بن جانا سب کے بس کی بات نہیں
اپنی حفاظت سب کرتے ہیں جتنے لوگ ہیں دنیا میں 
سچ کے لئے تلوار اٹھانا سب کے بس کی بات نہیں 
ساقی تیرا کام نہیں یہ کام تو ہے مے نوشوں کا 
پیاس کسی صحرا کی بجھانا سب کے بس کی بات نہیں 
یہ تو ہے اعجازؔ وطیرہ صرف محبت والوں کا 
وعدے قسمیں قول نبھانا سب کے بس کی بات نہیں

اعجاز رحمانی​

No comments:

Post a Comment