جسم پہ اپنے زخم سجانا سب کے بس کی بات نہیں
رت میں خزاں کی پھول کھلانا سب کے بس کی بات نہیں
خون سے اپنے دیپ جلانا سب کے بس کی بات نہیں
اپنے گھر کو آگ لگانا سب کے بس کی بات نہیں
یہ تو کام اسی کا ہے جو عشق کی آگ میں جل جائے
سیلابِ دریا سے گزرنا کام بہت ہی مشکل ہے
لیکن اپنی ناؤ جلانا سب کے بس کی بات نہیں
پیار کا جذبہ انسانوں میں کم ہے آج بہت ہی کم
نفرت کی دیوار گرانا سب کے بس کی بات نہیں
ہنستے ہوئے پھولوں کو مسلنا کوئی بھی مشکل کام نہیں
انگاروں کو پھول بنانا سب کے بس کی بات نہیں
اپنے چہروں پر تو چہرے لوگ سجا ہی لیتے ہیں
لیکن آئینہ بن جانا سب کے بس کی بات نہیں
اپنی حفاظت سب کرتے ہیں جتنے لوگ ہیں دنیا میں
سچ کے لئے تلوار اٹھانا سب کے بس کی بات نہیں
ساقی تیرا کام نہیں یہ کام تو ہے مے نوشوں کا
پیاس کسی صحرا کی بجھانا سب کے بس کی بات نہیں
یہ تو ہے اعجازؔ وطیرہ صرف محبت والوں کا
وعدے قسمیں قول نبھانا سب کے بس کی بات نہیں
اعجاز رحمانی
No comments:
Post a Comment