Wednesday, 30 November 2016

وہ خواب ہی سہی پیش نظر تو اب بھی ہے

وہ خواب ہی سہی پیشِ نظر تو اب بھی ہے
بچھڑنے والا شریکِ سفر تو اب بھی ہے
زباں بریدہ سہی، میں خزاں گزیدہ سہی 
ہرا بھرا مرا زخمِ ہنر تو اب بھی ہے
لاکھ کڑے وقت نے دیوار ہجر اٹھا دی مگر 
خیال یار میرا ہمسفر تو اب بھی ہے
محبتیں اگر معتبر ہیں تو پھر اک شخص 
محبتوں کی طرح معتبر تو اب بھی ہے
سنا تھا ہم نے کہ موسم بدل گئے ہیں مگر 
زمیں سے فاصلۂ ابرِ تر تو اب بھی ہے
ہماری دربدری پہ نہ جائیے، کہ ہمیں
شعورِ سایۂ دیوار و در تو اب بھی ہے
ہوس کے دور میں ممنونِ یادِ یار ہیں ہم 
کہ یادِ یار دلوں کی سِپر تو اب بھی ہے
کہانیاں ہیں اگر معتبر تو پھر اک شخص
کہانیوں کی طرح معتبر تو اب بھی ہے
ہزار کھینچ لے سورج حصارِ ابر، مگر
کرن کرن پہ گرفتِ نظر تو اب بھی ہے
مگر یہ کون بدلتی ہوئی رتوں سے کہے
شجر میں سایہ نہیں ہے، شجر تو اب بھی ہے
سمندروں سے زمینوں کو خوف کیا کہ امید
نمُو پذیر زمینِ ہنر تو اب بھی ہے

امید فاضلی

No comments:

Post a Comment